کبھی آہیں کبھی نالے کبھی آنسو نکلے
ان سے آغاز سخن کے کئی پہلو نکلے
یوں بھی وہ بزم تصور سے گزر جاتے ہیں
جیسے لے ساز سے یا پھول سے خوشبو نکلے
ہے اس امید پہ صیقل ہنر تیشہ زنی
سینۂ سنگ سے شاید کوئی گل رو نکلے
قصۂ دار و رسن ہی سہی کچھ بات کرو
کسی عنواں سے تو ذکر قد و گیسو نکلے
غم دوراں نے کیا اہل تمنا کا وہ حال
دشت سے جیسے ہراساں کوئی آہو نکلے
ہم جنہیں ہوشؔ تجاہل سے خطا سمجھے تھے
ناوک ناز وہ سب دل میں ترازو نکلے
غزل
کبھی آہیں کبھی نالے کبھی آنسو نکلے
ہوش ترمذی