کبھی آباد کرتا ہے کبھی برباد کرتا ہے
ستم ہر روز ہی وہ اک نیا ایجاد کرتا ہے
ہم اس کی ہر ادا پر روز پر پھیلائے آتے ہیں
نظر کے جال میں پابند جو صیاد کرتا ہے
وہ کل بھی معتبر تھا آج بھی رہبر ہمارا ہے
وہ دشمن جو وطن کی کھوکھلی بنیاد کرتا ہے
اسی کے عشق میں جلنا مری تقدیر ٹھہری ہے
محبت کی نئی جو بستیاں آباد کرتا ہے
میں اس کے پیار کے دھاگوں سے اپنی عمر بنتا ہوں
جو میرا نام لے لے کر مجھے برباد کرتا ہے
تضاد عشق کا یہ کھیل بھی کتنا انوکھا ہے
اسے ہم بھول جاتے ہیں جو ہم کو یاد کرتا ہے
زمانہ ہو گیا لیکن خبر لینے نہیں آیا
جو پنچھی روز میرے نام پر آزاد کرتا ہے
عجب وہ شخص ہے اس کی محبت بھی نرالی ہے
جو پہلے قید کر کے بعد میں آزاد کرتا ہے
میں اک مدت سے اس کے پیار کی خوشبو میں جیتا ہوں
حسنؔ مثل ہوا جو روز مجھ کو شاد کرتا ہے
غزل
کبھی آباد کرتا ہے کبھی برباد کرتا ہے
حسن رضوی