کب تصور یار گل رخسار کا فعل عبث
عشق ہے اس گلشن و گل زار کا فعل عبث
نکہت گیسوئے خوباں نے کیا بے قدر اسے
اب ہے سودا نافۂ تاتار کا فعل عبث
رشتۂ الفت رگ جاں میں بتوں کا پڑ گیا
اب بظاہر شغل ہے زنار کا فعل عبث
آرزو مند شہادت عاشق صادق ہوئے
غیر کو ڈر ہے تری تلوار کا فعل عبث
جب دل سنگیں دلاں میں کچھ اثر ہوتا نہیں
گریہ ہے اس دیدۂ خوں بار کا فعل عبث
خواب میں بھی یار کو اس کا خیال آتا نہیں
جاگنا تھا دیدۂ بے دار کا فعل عبث
خالی از حکمت ہوا بہرامؔ کب فعل حکیم
کام کب ہے داور دادار کا فعل عبث
غزل
کب تصور یار گل رخسار کا فعل عبث
بہرام جی