کب تلک یہ شعلۂ بے رنگ منظر دیکھیے
کیوں نہ حرف سبز ہی لکھ کر زمیں پر دیکھیے
پھر کہیں صحرائے جاں میں کھائیے تازہ فریب
پھر سراب چشمہ و عکس صنوبر دیکھیے
لیٹ رہئے بند کر کے آنکھیں جلتی دھوپ میں
اور پھر سبز و سیہ سورج کا منظر دیکھیے
پھر برہنہ شاخوں کے سائے میں دم لیجے کہیں
رینگتے سانپوں کو اپنے تن کے اوپر دیکھیے
داد دیجے شوکت تعمیر عرش و فرش کی
اور پھر بنیاد ہست و بود ڈھا کر دیکھیے
چاندنی راتوں میں ایک آسیب بن کر گھومیے
گھر کی دیواروں پر اپنا سایہ بے سر دیکھیے
ہے جگر کس کا جو اس تیغ ہنر کی داد دے
اپنے ہاتھوں زخم کھا کر اپنا جوہر دیکھیے
بے دلی کی تہہ میں غوطہ مار کر بیٹھے ہیں ہم
زیبؔ پھر پانی پہ کب ابھرے گا پتھر دیکھیے
غزل
کب تلک یہ شعلۂ بے رنگ منظر دیکھیے
زیب غوری