کب تک اس پیاس کے صحرا میں جھلستے جائیں
اب یہ بادل جو اٹھے ہیں تو برستے جائیں
کون بتلائے تمہیں کیسے وہ موسم ہیں کہ جو
مجھ سے ہی دور رہیں مجھ میں ہی بستے جائیں
ہم سے آزاد مزاجوں پہ یہ افتاد ہے کیا
چاہتے جائیں اسے خود کو ترستے جائیں
ہائے کیا لوگ یہ آباد ہوئے ہیں مجھ میں
پیار کے لفظ لکھیں لہجہ سے ڈستے جائیں
آئنہ دیکھوں تو اک چہرے کے بے رنگ نقوش
ایک نادیدہ سی زنجیر میں کستے جائیں
جز محبت کسے آیا ہے میسر امیدؔ
ایسا لمحہ کہ جدھر صدیوں کے رستے جائیں
غزل
کب تک اس پیاس کے صحرا میں جھلستے جائیں
امید فاضلی