EN हिंदी
کب سے الجھ رہے ہیں دم واپسیں سے ہم | شیح شیری
kab se ulajh rahe hain dam-e-wapsin se hum

غزل

کب سے الجھ رہے ہیں دم واپسیں سے ہم

بسمل سعیدی

;

کب سے الجھ رہے ہیں دم واپسیں سے ہم
دو اشک پونچھنے کو تری آستیں سے ہم

ہوگا تمہارا نام ہی عنوان ہر ورق
اوراق زندگی کو الٹ دیں کہیں سے ہم

سنگ در عدو پہ ہماری جبیں نہیں
یہ سجدے کر رہے ہیں تمہاری جبیں سے ہم

دہرائی جا سکے گی نہ اب داستان عشق
کچھ وہ کہیں سے بھول گئے ہیں کہیں سے ہم

بسملؔ حریم حسن میں ہیں کامیاب شوق
جوش شباب و رنگ رخ آتشیں سے ہم