کب سے الجھ رہے ہیں دم واپسیں سے ہم
دو اشک پونچھنے کو تری آستیں سے ہم
ہوگا تمہارا نام ہی عنوان ہر ورق
اوراق زندگی کو الٹ دیں کہیں سے ہم
سنگ در عدو پہ ہماری جبیں نہیں
یہ سجدے کر رہے ہیں تمہاری جبیں سے ہم
دہرائی جا سکے گی نہ اب داستان عشق
کچھ وہ کہیں سے بھول گئے ہیں کہیں سے ہم
بسملؔ حریم حسن میں ہیں کامیاب شوق
جوش شباب و رنگ رخ آتشیں سے ہم
غزل
کب سے الجھ رہے ہیں دم واپسیں سے ہم
بسمل سعیدی