EN हिंदी
کب سے راضی تھا بدن بے سر و سامانی پر | شیح شیری
kab se raazi tha badan be-sar-o-samani par

غزل

کب سے راضی تھا بدن بے سر و سامانی پر

عرفانؔ صدیقی

;

کب سے راضی تھا بدن بے سر و سامانی پر
شب میں حیران ہوا خون کی طغیانی پر

ایک چہکار نے سناٹے کا توڑا پندار
ایک نو برگ ہنسا دشت کی ویرانی پر

کل بگولے کی طرح اس کا بدن رقص میں تھا
کس قدر خوش تھی مری خاک پریشانی پر

میرے ہونٹوں سے جو سورج کا کنارہ ٹوٹا
بن گیا ایک ستارہ تری پیشانی پر

کون سا شہر سبا فتح کیا چاہتا ہوں
لوگ حیراں ہیں مرے کار سلیمانی پر