EN हिंदी
کب سے اس دنیا کو سرگرم سفر پاتا ہوں میں | شیح شیری
kab se is duniya ko sargarm-e-safar pata hun main

غزل

کب سے اس دنیا کو سرگرم سفر پاتا ہوں میں

شفیق جونپوری

;

کب سے اس دنیا کو سرگرم سفر پاتا ہوں میں
پھر بھی ہر منزل کو پہلی رہ گزر پاتا ہوں میں

مرشد مے خانہ کے قدموں پہ سر پاتا ہوں میں
اب دماغ مے پرستی عرش پر پاتا ہوں میں

ہر طرف ساقی ترا فیض نظر پاتا ہوں میں
خانقاہوں میں بھی مستی کا اثر پاتا ہوں میں

دم بدم اس رخ پہ اک حسن دگر پاتا ہوں میں
ہر نگاہ شوق کو پہلی نظر پاتا ہوں میں

سجدہ اس کا ہے جبیں اس کی ہے قسمت اس کی ہے
جس کی پیشانی پہ ان کی خاک در پاتا ہوں میں

اللہ اللہ ساکنان کوئے جاناں کا وقار
ہر گدائے آستاں کو تاجور پاتا ہوں میں

عرش کو حیرت حرم کو وجد نازاں بندگی
ہائے وہ عالم کہ جب سجدے میں سر پاتا ہوں میں

لے گئے کس کے رخ و گیسو بہار روز و شب
مدتوں سے گھر کو بے شام و سحر پاتا ہوں میں

دور ہوتی ہے رہ غربت میں کوسوں کی تھکن
جب کسی منزل پہ کوئی ہم سفر پاتا ہوں میں

اہل محفل ہوں گے کیا اہل بصیرت اے شفیقؔ
میر محفل ہی کو بے فکر و نظر پاتا ہوں میں