EN हिंदी
کب سے بنجر تھی نظر خواب تو آیا | شیح شیری
kab se banjar thi nazar KHwab to aaya

غزل

کب سے بنجر تھی نظر خواب تو آیا

غفران امجد

;

کب سے بنجر تھی نظر خواب تو آیا
شکر ہے دشت میں سیلاب تو آیا

روشنی لے کے عقیدوں کے کھنڈر میں
مکر اوڑھے سہی مہتاب تو آیا

کشتیٔ جاں کو یہ تسکین بہت ہے
خیریت پوچھنے گرداب تو آیا

دولت عشق گنوا کر سہی امجدؔ
فہم میں نکتۂ آداب تو آیا