کب لذتوں نے ذہن کا پیچھا نہیں کیا
یہ میرا حوصلہ تھا کہ لب وا نہیں کیا
تجدید ارتباط بھی ممکن تھی بعد میں
میں نے ہی اس روش کو گوارا نہیں کیا
پہلے تو اک جنون سا عرض طلب کا تھا
جب وہ ملا تو دل نے تقاضا نہیں کیا
سورج رہا جو دن میں مرے گھر سے دور دور
پھر میں نے رات میں بھی اجالا نہیں کیا
کیا وہم تھا کہ کھلتے ہی لب بند ہو گئے
کیا بات تھی کہ لفظ بھی پورا نہیں کیا
جب میرا اشتیاق ہوا ضبط آزما
پھر اس نے اپنے آپ ہی پردا نہیں کیا
میں سادہ لوح سادہ بیاں سادہ آرزو
اور اس نے سادگی پہ بھروسا نہیں کیا
میں نے بھی چلتے چلتے کیا تھا یوں ہی سوال
کیا ہو گیا جو آپ نے پورا نہیں کیا
وہ کم نگاہ تھا مگر اس سے چرا کے آنکھ
میں نے بھی اپنے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا
امرت سمجھ کے پی لیا انجمؔ نے زہر غم
لیکن تمہارے نام کو رسوا نہیں کیا
غزل
کب لذتوں نے ذہن کا پیچھا نہیں کیا
انور انجم