کب کون کہاں کس لیے زنجیر بپا ہے
یہ عقدۂ اسرار ازل کس پہ کھلا ہے
کس بھیس کوئی موج ہوا ساتھ لگا لے
کس دیس نکل جائے یہ دل کس کو پتا ہے
اک ہاتھ کی دوری پہ ہیں سب چاند ستارے
یہ عرشۂ جاں کس دم دیگر کی عطا ہے
آہنگ شب و روز کے نیرنگ سے آگے
دل ایک گل خواب کی خوشبو میں بسا ہے
یہ شہر طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے
پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ کہ بلا ہے
ہر سوچ ہے اک گنبد احساس میں گرداں
اور گنبد احساس میں در حرف دعا ہے
یہ دید تو روداد حجابات ہے عالؔی
وہ ماہ مکمل نہ گھٹا ہے نہ بڑھا ہے
غزل
کب کون کہاں کس لیے زنجیر بپا ہے
جلیل عالیؔ