کب اس سے قبل نظر میں گل ملال کھلا
کسی کی یاد میں لیکن یہ اب کے سال کھلا
عجیب آب و ہوا تھی عجیب تھی مٹی
سو دل کے گوشے میں اک پھول بے مثال کھلا
میں چھو کے دیکھ رہی تھی کہ سبزۂ رخ پر
گلاب سرخ کی صورت ترا جمال کھلا
میں دم بخود ہی رہی اور شیشۂ جاں پر
مثال ریزۂ خورشید اک وصال کھلا
سفر کی شام ستارہ نصیب کا جاگا
پھر آسمان محبت پہ اک ہلال کھلا
اسی طرح سے تری یاد گل کھلاتی رہی
کہ زخم بھرنے لگا جب تو اندمال کھلا
یہ واقعہ ہے کہ اس بار تو بہار کے بعد
کھلا ہے گلشن امید اور کمال کھلا

غزل
کب اس سے قبل نظر میں گل ملال کھلا
ثمینہ راجہ