کب بیاباں راہ میں آیا یہ سمجھا ہی نہیں
چلتے رہنے کے سوا دھیان اور کچھ تھا ہی نہیں
کرب منزل کا ہو کیا احساس ان اشجار کو
جن کے سائے میں مسافر کوئی ٹھہرا ہی نہیں
کس کو بتلاتے کہ آئے ہیں کہاں سے کون ہیں
ہم فقیروں کا کسی نے حال پوچھا ہی نہیں
کیا طلب کرتا کسی سے زندگی کا خوں بہا
مجرموں میں میرا قاتل کوئی نکلا ہی نہیں
بے تحاشا پیار کی دولت لٹائی عمر بھر
دوستی کا ہم نے کچھ انجام سوچا ہی نہیں
گھومتا پایا گیا تھا شہر میں وہ ایک دن
پھر کسی نے تیرے دیوانے کو دیکھا ہی نہیں
دوستو خاورؔ سنائے کیا تمہیں تازہ غزل
مدتوں سے اس نے کوئی شعر لکھا ہی نہیں
غزل
کب بیاباں راہ میں آیا یہ سمجھا ہی نہیں
بدیع الزماں خاور