کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا اٹھائے بن
لگتا نہیں ہے جی کہیں لگا لگائے بن
جب تک نہ بے قرار ہوں پڑتا نہیں قرار
آتا نہیں ہے چین ہمیں تلملائے بن
بے آہ و نالہ منہ سے نکلتی نہیں ہے بات
حیران بیٹھے رہتے ہیں آنسو بہائے بن
زنداں لگے ہے گھر جو کسی کا نہ ہوں اسیر
آتے نہیں بہ خود کہیں ہم آئے جائے بن
دیوانے گر نہ ہوں تو پری رو نہ دیکھیں سیر
بگڑے ہے بات حال پریشاں بنائے بن
جنبش نہ دست و پا میں ہو بے شورش جنوں
افسردہ طبع رہتے ہیں دھومیں مچائے بن
گر ہو نہ درد عشق تو بے درد ہم کہائیں
کچھ لطف گفتگو ہی نہیں ہائے وائے بن
کیا جوش طبع ہو نہ مئے عشق گر پئیں
کچھ کیفیت نہیں ہے یہ پیالہ پلائے بن
گر بر میں ہو نہ کوئی تو پہلو تہی رہے
کیا بیٹھنا ہے زانو سے زانو بھڑائے بن
کوئی نہ دے دکھائی تو کیا خاک دیکھیے
رہتے اسیر غم ہیں کسی کے بلائے بن
افکار سیکڑوں ہوں اگر ہو نہ فکر عشق
وارستگی کہاں ہے کہیں جی پھنسائے بن
قاتل سے گر نہ ملیے تو جرأتؔ ہماری کیا
جوں گل شگفتہ ہو نہ کوئی زخم کھائے بن
غزل
کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا اٹھائے بن
جرأت قلندر بخش