کب اشک شب ہجر سمندر نہ ہوا تھا
ہاں قطرۂ نیساں ابھی گوہر نہ ہوا تھا
پر نور ہوا خانۂ دل ان کے قدم سے
اس سے کبھی پہلے یہ منور نہ ہوا تھا
زلفیں تو سنورتی ہی رہیں بارہا لیکن
آئینہ کبھی رخ کے برابر نہ ہوا تھا
ہم زاد کی صورت رہی تا عمر اسیری
اس سے جو رہا ہونا مقدر نہ ہوا تھا
ملنا تھا نہ ملتا ہے سکوں دہر میں مجھ کو
حاصل وہ ہوا اب جو میسر نہ ہوا تھا
ملتی ہی کہاں چھاؤں مجھے وادئ غم میں
سایہ بھی مرا قد کے برابر نہ ہوا تھا
دعویٔ سخن کرنا تو اک بات ہے ماہرؔ
اب تک کوئی شاعر ترا ہمسر نہ ہوا تھا
غزل
کب اشک شب ہجر سمندر نہ ہوا تھا
ماہر آروی