کاتب تقدیر میرے حق میں کچھ تحریر ہو
رنج ہو یا شادمانی کچھ تو دامن گیر ہو
آب رود زیست کے کچھ گھونٹ زہریلے بھی ہوں
میں نے کب چاہا تھا ہر قطرہ مجھے اکسیر ہو
عہد آزادی سے بہتر قید زنداں ہو تو پھر
توڑ دینے کی قفس کو کیوں کوئی تدبیر ہو
تیز لہریں آ ہی جاتی ہیں مٹانے کے لیے
جب لب ساحل گھروندا ریت کا تعمیر ہو
غم رہے پنہاں در و دیوار دل کے درمیاں
کیا ضروری ہے کہ کرب زیست کی تشہیر ہو
غزل
کاتب تقدیر میرے حق میں کچھ تحریر ہو
راغب اختر