EN हिंदी
کاٹ کر جو راہ کا بوڑھا شجر لے جائے گا | شیح شیری
kaT kar jo rah ka buDha shajar le jaega

غزل

کاٹ کر جو راہ کا بوڑھا شجر لے جائے گا

شرما تاثیر

;

کاٹ کر جو راہ کا بوڑھا شجر لے جائے گا
ساتھ اپنے دھوپ کا لمبا سفر لے جائے گا

ایک صحرا بے یقینی کا ہے تا حد نظر
قافلہ سالار دیکھیں اب کدھر لے جائے گا

اپنے اپنے ہی گھروں کی فکر گر کرتے رہے
دیکھنا طوفان یہ سارا نگر لے جائے گا

بے گھروں کی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں
ایک دن کوئی فرشتہ ان کو گھر لے جائے گا

کوڑیوں کے مول بک جائے گا خود اس کا وجود
کوئی جب بازار میں اپنا ہنر لے جائے گا

جس کے دل میں کوئی خواہش کوئی ارماں ہی نہیں
ساتھ اپنے بے بہا زاد سفر لے جائے گا

یہ کھلے گا مجھ پہ آخر میری منزل ہے کہاں
جب جنوں تاثیرؔ مجھ کو در بدر لے جائے گا