کاٹ کر جو راہ کا بوڑھا شجر لے جائے گا
ساتھ اپنے دھوپ کا لمبا سفر لے جائے گا
ایک صحرا بے یقینی کا ہے تا حد نظر
قافلہ سالار دیکھیں اب کدھر لے جائے گا
اپنے اپنے ہی گھروں کی فکر گر کرتے رہے
دیکھنا طوفان یہ سارا نگر لے جائے گا
بے گھروں کی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں
ایک دن کوئی فرشتہ ان کو گھر لے جائے گا
کوڑیوں کے مول بک جائے گا خود اس کا وجود
کوئی جب بازار میں اپنا ہنر لے جائے گا
جس کے دل میں کوئی خواہش کوئی ارماں ہی نہیں
ساتھ اپنے بے بہا زاد سفر لے جائے گا
یہ کھلے گا مجھ پہ آخر میری منزل ہے کہاں
جب جنوں تاثیرؔ مجھ کو در بدر لے جائے گا
غزل
کاٹ کر جو راہ کا بوڑھا شجر لے جائے گا
شرما تاثیر