کاش سمجھتے اہل زمانہ
کیا ہے حقیقت کیا ہے فسانہ
عشق کا شیوہ حسن کی فطرت
ایک حقیقت ایک فسانہ
راہ وفا دشوار بہت ہے
سوچ سمجھ کر پاؤں بڑھانا
تم نہ ہو جس کے کون ہو اس کا
جس کے ہوئے تم اس کا زمانہ
رہرو راہ عشق و محبت
جان تو دینا لب نہ ہلانا
پہلوئے گل میں خار نہاں ہیں
گلچیں اپنا ہاتھ بچانا
ہم نے تو وصفیؔ پایا ہے ان کو
جلوہ بہ جلوہ خانہ بہ خانہ
غزل
کاش سمجھتے اہل زمانہ
عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی