کاش مری جبین شوق سجدوں سے سرفراز ہو
یار کی خاک آستاں تاج سر نیاز ہو
ہم کو بھی پائمال کر عمر تری دراز ہو
مست خرام ناز ادھر مشق خرام ناز ہو
چشم حقیقت آشنا دیکھے جو حسن کی کتاب
دفتر صد حدیث راز ہر ورق مجاز ہو
سامنے روئے یار ہو سجدے میں ہو سر نیاز
یونہی حریم ناز میں آٹھوں پہر نماز ہو
اس کے حریم ناز میں عقل و خرد کو دخل کیا
جس کی گلی کی خاک کا ذرہ جہان راز ہو
تیری گلی میں پا کے جا جائے کہاں ترا گدا
کیوں نہ وہ بے نیاز ہو تجھ سے جسے نیاز ہو
بیدمؔ خستہ ہجر میں بن گئی جان زار پر
جس نے دیا ہے درد دل کاش وہ چارہ ساز ہو
غزل
کاش مری جبین شوق سجدوں سے سرفراز ہو
بیدم شاہ وارثی