کاش میرے ڈوبنے کا وہ بھی منظر دیکھتا
لیکن اس کو کیا پڑی تھی کیوں پلٹ کر دیکھتا
دشمنوں سے خوف کھاتا عمر بھر میں بھی اگر
دوستوں کی آستینوں میں نہ خنجر دیکھتا
شہر سے نکلے ہیں ہم کس جرم کی پاداش میں
یہ تو اس کو دیکھنا تھا وہ ستم گر دیکھتا
میں تھا شاہیں سب کی نظریں تھیں مری پرواز پر
کون اب آ کر مرے ٹوٹے ہوئے پر دیکھتا
مے کشی کا ہم پہ گر الزام ہے تو ہو اسیرؔ
کوئی ایسے زندگی بھر زہر پی کر دیکھتا

غزل
کاش میرے ڈوبنے کا وہ بھی منظر دیکھتا
رام ناتھ اسیر