کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں
آنکھ کے جسم پہ خوابوں کی ردا تان سکوں
میں سمندر ہوں نہ تو میرا شناور پیارے
تو بیاباں ہے نہ میں خاک تری چھان سکوں
روئے دلبر بھی وہی چہرۂ قاتل بھی وہی
تو کبھی آنکھ ملائے تو میں پہچان سکوں
وقت یہ اور ہے مجھ میں یہ کہاں تاب کہ میں
یاریاں جھیل سکوں دشمنیاں ٹھان سکوں
جب ستم ہے یہ تعارف ہی تو کیسا ہو اگر
میں اسے جاننے والوں کی طرح جان سکوں
غزل
کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں
عرفانؔ صدیقی