EN हिंदी
کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں | شیح شیری
kash ek shab ke liye KHud ko mayassar ho jaen

غزل

کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں

توصیف تبسم

;

کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں
فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں

دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں
رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں

تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے
خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں

وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز
تیری آنکھیں ترے بازو ترا پیکر ہو جائیں

اپنی پلکوں سے جنہیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی
کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائیں

جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے
خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں