کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں
فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں
دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں
رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں
تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے
خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں
وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز
تیری آنکھیں ترے بازو ترا پیکر ہو جائیں
اپنی پلکوں سے جنہیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی
کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائیں
جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے
خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں
غزل
کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں
توصیف تبسم