کارواں آتے ہیں اور آ کے چلے جاتے ہیں
ایک ہم ہیں کہ اسی سمت تکے جاتے ہیں
دن گزرتے ہیں مہ و سال گزر جاتے ہیں
وقت کے پاؤں بھی چل چل کے تھکے جاتے ہیں
جانے آواز جرس ہے کہ صدائے صحرا
ایک آواز سی سنتے ہیں سنے جاتے ہیں
غم نے کروٹ کبھی بدلی تھی مگر آج تلک
دل کے آغوش میں کانٹے سے چبھے جاتے ہیں
غزل
کارواں آتے ہیں اور آ کے چلے جاتے ہیں
جاوید کمال رامپوری