کاروبار عشق کی کثرت کبھی ایسی نہ تھی
دل نہ تھا تو تنگئ فرصت کبھی ایسی نہ تھی
یاس سے ویرانئ حسرت کبھی ایسی نہ تھی
دل میں سناٹا نہ تھا وحشت کبھی ایسی نہ تھی
ان کے وعدہ پر ہمیں جینا پڑا ہے حشر تک
ورنہ طولانی شب فرقت کبھی ایسی نہ تھی
دیکھ ڈالے زندگی میں وصل و فرقت کے طلسم
غم کبھی ایسا نہ تھا راحت کبھی ایسی نہ تھی
آپ نے بیمار پرسی کی تو جینا ہے وبال
ورنہ مرنے کی مجھے حسرت کبھی ایسی نہ تھی
بامزا ہے کس قدر انکار ان کا وصل میں
تجھ میں اے خون جگر لذت کبھی ایسی نہ تھی
دل کو کیا سمجھا دیا نومیدیٔ جاوید نے
پردہ دار غم شب فرقت کبھی ایسی نہ تھی
زندگی کی کش مکش سے مر کے پائی کچھ نجات
اس سے پہلے اے نظرؔ فرصت کبھی ایسی نہ تھی
غزل
کاروبار عشق کی کثرت کبھی ایسی نہ تھی
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی