کارزار دہر میں کیا نصرت و غم دیکھنا
ایک بس اپنا علم اور اپنا پرچم دیکھنا
اس طلسم عصر حاضر سے جب آنکھیں جل اٹھیں
دور جلتا اک چراغ اسم اعظم دیکھنا
منتظر ہیں راستوں پر حادثے چلتے ہوئے
کھول رکھنا اپنی آنکھیں اور کم کم دیکھنا
چاند تارے اور جگنو اور مرا رنگ ہنر
یعنی اس کو یاد کرنا اس کو پیہم دیکھنا
ہجر کی پرسوز راتیں کس طرح آباد ہوں
شاد ہوں شاداب ہوں اے میرے ہمدم دیکھنا
غزل
کارزار دہر میں کیا نصرت و غم دیکھنا
قمر صدیقی