کار خیر اتنا تو اے لغزش پا ہو جاتا
پائے ساقی پہ ہی اک سجدہ ادا ہو جاتا
وہ تو یہ کہئے کہ مجبور ہے نظم ہستی
ورنہ ہر بندۂ مغرور خدا ہو جاتا
قافلے والے تھے محروم بصیرت ورنہ
میرا ہر نقش قدم راہنما ہو جاتا
غم کے ماروں پہ بھی اے داور حشر ایک نظر
آج تو فیصلۂ اہل وفا ہو جاتا
یوں اندھیروں میں بھٹکتے نہ کبھی اہل خرد
کوئی دیوانہ اگر راہنما ہو جاتا
دل تری نیم نگاہی کا تو ممنون سہی
درد ابھی کم ہے ذرا اور سوا ہو جاتا
لذت غم سے ہے ضد فطرت غم کو شاید
درد ہی درد نہ کیوں درد دوا ہو جاتا
سن کے بھر آتا اگر ان کا بھی دل اے اعجازؔ
قصۂ درد کا عنوان نیا ہو جاتا
غزل
کار خیر اتنا تو اے لغزش پا ہو جاتا
اعجاز وارثی