کار دنیا سے گئے دیدۂ بے دار کے ساتھ
ربط لازم تھا مگر نرگس بیمار کے ساتھ
قیمت شوق بڑھی ایک ہی انکار کے ساتھ
واقعہ کچھ تو ہوا چشم خریدار کے ساتھ
ہر کوئی جان بچانے کے لئے دوڑ پڑا
کون تھا آخر دم قافلہ سالار کے ساتھ
میں ترے خواب سے آگے بھی نکل سکتا ہوں
دیکھ مجھ کو نہ پرکھ وقت کی رفتار کے ساتھ
ظلم سے ہاتھ اٹھانا نہیں آتا ہے اگر
کچھ رعایت ہی کرو اپنے گرفتار کے ساتھ
قیمت حسن و ادا جان کی بازی ٹھہری
لوگ آئے تھے وہاں درہم و دینار کے ساتھ
حد سے بڑھ کر بھی تغافل نہیں اچھا ہوتا
کچھ تعلق بھی تو رکھتے ہیں پرستار کے ساتھ
غزل
کار دنیا سے گئے دیدۂ بے دار کے ساتھ
آصف شفیع