کانٹے کو پھول سنگ کو گوہر کہا گیا
اس شہر میں گدا کو سکندر کہا گیا
بے چہرہ لوگ حسن کا معیار بن گئے
پرچھائیوں کو نور کا پیکر کہا گیا
جلاد کو مسیحا نفس کی سند ملی
انسان دشمنوں کو پیمبر کہا گیا
کچھ جس کے پاس نیش و نمک کے سوا نہ تھا
چاک جگر کا اس کو رفو گر کہا گیا
کیا شے ہے مصلحت بھی شب تیرہ فام کو
دانشوروں میں صبح منور کہا گیا
گونگا ہے کر رہا ہے اشاروں میں بات چیت
صابرؔ کو کس بنا پہ سخنور کہا گیا
غزل
کانٹے کو پھول سنگ کو گوہر کہا گیا
نوبہار صابر