کانچ کے شہر میں پتھر نہ اٹھاؤ یارو
مے کدہ ہے اسے مقتل نہ بناؤ یارو
صحن مقتل میں بھی مے خانہ سجاؤ یارو
شب کے سناٹے میں ہنگامہ مچاؤ یارو
زندگی بکنے چلی آئی ہے بازاروں میں
اس جنازے کے بھی کچھ دام لگاؤ یارو
جن کی شہ رگ کا لہو پھول کی انگڑائی تھا
ان کو اب حال گلستاں نہ بتاؤ یارو
پھیلتے سایۂ شب میں نہ چلو رک رک کے
بجھتی راہوں کو کف پا سے سجاؤ یارو
بزم یاراں میں وہ کچھ سوچ کے آیا ہوگا
ایسے دیوانے کو ٹھوکر نہ لگاؤ یارو
رات ڈھل جائے گی مے خانہ سنبھل جائے گا
کوئی نغمہ کوئی پیغام سناؤ یارو
زندگی رینگتی پھرتی ہے یہاں کاسہ بکف
اس کو اب وقت کا آئینہ دکھاؤ یارو
اب دھندلکوں میں بھی ہے تازہ اجالوں کا خیالؔ
شب کی دیوار سلیقے سے گراؤ یارو
غزل
کانچ کے شہر میں پتھر نہ اٹھاؤ یارو
فیض الحسن