کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دن
کہاں گئیں وہ اچھی راتیں باتیں کرتے دن
ایک ہی منظر شہر پہ اپنے کب سے ٹھہرا ہے
کچھ سوئی کچھ جاگی راتیں باتیں کرتے دن
دیوانوں کے خواب کی صورت ان مل اور بے جوڑ
اپنے آپ سے لڑتی راتیں باتیں کرتے دن
جانے کب یہ میل کریں گے ایک دوجے کے ساتھ
خاموشی میں ڈوبی راتیں باتیں کرتے دن
تنہائی کے خوف کی دیکھو کیا کیا شکلیں ہیں
سناٹے میں لپٹی راتیں باتیں کرتے دن
امجدؔ اپنے ساتھ رہیں گے کب تک رستوں میں
گہری سوچ میں الجھی راتیں باتیں کرتے دن
غزل
کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دن
امجد اسلام امجد