کام کچھ آ نہ سکی رسم شناسائی بھی
شامل بزم تھی شاید مری تنہائی بھی
کاش تو اپنی طلب میں کبھی پہنچے مجھ تک
تیرا ہی آئنہ ہے چشم تماشائی بھی
سہل مت سمجھو مرے شوق کی ناکامی کو
مفت ملتی ہے کہیں عزت رسوائی بھی
چشم بے خواب میں ہے خواب کی صورت اک شخص
خود سے غافل بھی ہے اور محو خود آرائی بھی
خیر میں تو اسی قابل تھا مگر یہ تو بتا
زندگی کیا تو کسی کو کبھی راس آئی بھی

غزل
کام کچھ آ نہ سکی رسم شناسائی بھی
مشفق خواجہ