کام کوئی تو کبھی وقت سے آگے کر جا
اے دل زندہ مرے مرنے سے پہلے مر جا
ساغر چشم کو زہراب سے خالی کر دے
اور جو بھرتا ہے تو پیمانۂ ہستی بھر جا
تشنگی کم ہو مگر دور نہ ہونے پائے
اپنے پیاسے کو نہ سیراب محبت کر جا
خاک سے تا بہ فلک خواب کا پھیلا دامن
کوئی کوشش نہ کہیں اور تمنا ہر جا
تو مسافر ترے کس کام کی شہرت سیدؔ
یہ سخاوت سر دہلیز رفیقاں دھر جا
غزل
کام کوئی تو کبھی وقت سے آگے کر جا
مظفر علی سید