EN हिंदी
کام عشق بے سوال آ ہی گیا | شیح شیری
kaam ishq-e-be-sawal aa hi gaya

غزل

کام عشق بے سوال آ ہی گیا

آنند نرائن ملا

;

کام عشق بے سوال آ ہی گیا
خودبخود اس کو خیال آ ہی گیا

تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر
دل کے آئینے میں بال آ ہی گیا

دو مری گستاخ نظروں کو سزا
پھر وہ نا گفتہ سوال آ ہی گیا

زندگی سے لڑ نہ پایا جوش دل
رفتہ رفتہ اعتدال آ ہی گیا

حسن کی خلوت میں دراتا ہوا
عشق کی دیکھو مجال آ ہی گیا

غم بھی ہے اک پردۂ اظہار شوق
چھپ کے آنسو میں سوال آ ہی گیا

وہ افق پر آ گیا مہر شباب
زندگی کا ماہ و سال آ ہی گیا

بے خودی میں کہہ چلا تھا راز دل
وہ تو کہئے کچھ خیال آ ہی گیا

ہم نہ کر پائے خطا بزدل ضمیر
لے کے تصویر مآل آ ہی گیا

ابتدائے عشق کو سمجھے تھے کھیل
مرنے جینے کا سوال آ ہی گیا

لاکھ چاہا ہم نہ لیں غم کا اثر
رخ پہ اک رنگ ملال آ ہی گیا

بچ کے جاؤ گے کہاں ملاؔ کوئی
ہاتھ میں لے کر گلال آ ہی گیا