کام عشق بے سوال آ ہی گیا
خودبخود اس کو خیال آ ہی گیا
تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر
دل کے آئینے میں بال آ ہی گیا
دو مری گستاخ نظروں کو سزا
پھر وہ نا گفتہ سوال آ ہی گیا
زندگی سے لڑ نہ پایا جوش دل
رفتہ رفتہ اعتدال آ ہی گیا
حسن کی خلوت میں دراتا ہوا
عشق کی دیکھو مجال آ ہی گیا
غم بھی ہے اک پردۂ اظہار شوق
چھپ کے آنسو میں سوال آ ہی گیا
وہ افق پر آ گیا مہر شباب
زندگی کا ماہ و سال آ ہی گیا
بے خودی میں کہہ چلا تھا راز دل
وہ تو کہئے کچھ خیال آ ہی گیا
ہم نہ کر پائے خطا بزدل ضمیر
لے کے تصویر مآل آ ہی گیا
ابتدائے عشق کو سمجھے تھے کھیل
مرنے جینے کا سوال آ ہی گیا
لاکھ چاہا ہم نہ لیں غم کا اثر
رخ پہ اک رنگ ملال آ ہی گیا
بچ کے جاؤ گے کہاں ملاؔ کوئی
ہاتھ میں لے کر گلال آ ہی گیا
غزل
کام عشق بے سوال آ ہی گیا
آنند نرائن ملا