کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
تیرا چاہا ہوا برا نہ ہوا
خاک اڑتی جو ہم خدا ہوتے
بندگی کا بھی حق ادا نہ ہوا
سب جتایا کئے نیاز قدیم
وہ کسی کا بھی آشنا نہ ہوا
رخش ایام کو قرار کہاں
ادھر آیا ادھر روانہ ہوا
کیا کھلے جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے جو کبھی جدا نہ ہوا
سخت فتنہ جہان میں اٹھتا
کوئی تجھ سا ترے سوا نہ ہوا
جو گدھا خوئے بد کی دلدل میں
جا پھنسا پھر کبھی رہا نہ ہوا
تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا
رہرو مسلک توکل ہے
وہ جو محتاج غیر کا نہ ہوا
غزل
کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
اسماعیلؔ میرٹھی