EN हिंदी
کام آ گئی ہے گردش دوراں کبھی کبھی | شیح شیری
kaam aa gai hai gardish-e-dauran kabhi kabhi

غزل

کام آ گئی ہے گردش دوراں کبھی کبھی

اقبال عابدی

;

کام آ گئی ہے گردش دوراں کبھی کبھی
دیکھی ہے زلف یار پریشاں کبھی کبھی

خون جگر سے آتش سوزاں کو شہہ ملی
خود درد بن کے رہ گیا درماں کبھی کبھی

طوفاں کی ٹھوکروں سے کنارہ کبھی ملا
ساحل سے آ کے لے گیا طوفاں کبھی کبھی

وحشت نے مجھ کو بزم طرب سے اٹھا دیا
نکلا اس انجمن سے پریشاں کبھی کبھی

اکثر خوشی ہی بن گئی ہے دشمن سکوں
غم بن گیا سکوت کا ساماں کبھی کبھی

دست خرد نے مصلحتاً چاک بھی کیا
سی بھی لیا جنوں نے گریباں کبھی کبھی

دیوانوں میں شمار ہوا اس غریب کا
اقبالؔ ہو گیا جو غزل خواں کبھی کبھی