کالی راتوں میں فصیل درد اونچی ہو گئی
اندھی گلیوں میں خموشی لاش بن کے سو گئی
برف سے ٹھنڈے اندھیروں کی سسکتی گود میں
مرتے لمحوں کی اداسی دل میں کانٹے بو گئی
شہر کی سوتی چھتیں ہوں یا فسردہ راستے
قطرہ قطرہ گرتی شبنم سب کا چہرہ دھو گئی
نیند میں ڈوبے شجر سے چیختے پنچھی اڑے
خوف کے مارے ہوا میں کپکپی سی ہو گئی
اس اکیلے پن کے ہاتھوں ہم تو فکریؔ مر گئے
وہ صدا جو ڈھونڈتی تھی جنگلوں میں کھو گئی
غزل
کالی راتوں میں فصیل درد اونچی ہو گئی
پرکاش فکری