کالے کپڑے نہیں پہنے ہیں تو اتنا کر لے
اک ذرا دیر کو کمرے میں اندھیرا کر لے
اب مجھے پار اتر جانے دے ایسا کر لے
ورنہ جو آئے سمجھ میں تری دریا کر لے
خودبخود راستہ دے دے گا یہ طوفان مجھے
تجھ کو پانے کا اگر دل یہ ارادہ کر لے
آج کا کام تجھے آج ہی کرنا ہوگا
کل جو کرنا ہے تو پھر آج تقاضا کر لے
اب بڑے لوگوں سے اچھائی کی امید نہ کر
کیسے ممکن ہے کریلا کوئی میٹھا کر لے
گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا
آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے
مدتوں بعد وہ آئے گا ہمارے گھر میں
پھر سے اے دل کسی امید کو زندہ کر لے
ہم سفر لیلیٰ بھی ہوگی میں تبھی جاؤں گا
مجھ پہ جتنے بھی ستم کرنے ہوں صحرا کر لے
غزل
کالے کپڑے نہیں پہنے ہیں تو اتنا کر لے
منور رانا