کالا جادو پھیل رہا ہے
اور خدا خاموش کھڑا ہے
کالے سائے ناچ رہے ہیں
چار طرف پر شور ہوا ہے
آگ دکھا کر جلنے والو
کس کی آگ میں کون جلا ہے
سانس بھی تم لیتے ہو کیوں کر
اف کتنی مسموم ہوا ہے
لاکھوں بھیڑیں دوڑ رہی ہیں
ایک گڈریا ہانک رہا ہے
رقص کناں ہوں اک رسی پر
اور توازن بگڑ رہا ہے
میں رستے کو ڈھونڈ رہا ہوں
رستہ مجھ کو ڈھونڈ رہا ہے
کون ہے یہ بیتاب جو کب سے
رستے میں چپ چاپ کھڑا ہے

غزل
کالا جادو پھیل رہا ہے
پرتپال سنگھ بیتاب