کاکل کی طرح بخت بھی بل کھائے ہوئے ہے
کیوں آج مقدر مجھے الجھائے ہوئے ہے
زنجیر محن پاؤں میں پہنائے ہوئے ہے
یا جلوۂ جاناں مجھے بہلائے ہوئے ہے
لے جائے مجھے سوئے چمن اب نہ بہاراں
دل قسمت زنداں کی قسم کھائے ہوئے ہے
میں بند قفس میں ہوں مگر فکر نشیمن
سینے میں جگر درد سے برمائے ہوئے ہے
سلجھے گی نہ مشاطگئی عقل و خرد سے
وہ زلف جنوں جس کو کہ الجھائے ہوئے ہے
اس کو بھی تو مل جائے ذرا حسن کا صدقہ
داماں طلب در پہ جو پھیلائے ہوئے ہے
اے نورؔ مجھے کچھ تو بھروسہ ہے زباں پر
کچھ بخت سعادت مجھے گرمائے ہوئے ہے
غزل
کاکل کی طرح بخت بھی بل کھائے ہوئے ہے
نور محمد نور