کاغذ کی ناؤ کیا ہوئی دریا کدھر گیا
بچپن کو جو ملا تھا وہ لمحہ کدھر گیا
معدوم سب ہوئیں وہ تجسس کی بجلیاں
حیرت میں ڈال دے وہ تماشا کدھر گیا
پھر یوں ہوا کہ لوگ مشینوں میں ڈھل گئے
وہ دوست لب پہ لے کے دلاسہ کدھر گیا
کیا دشت جاں کی سوختہ حالی کہیں اسے
چاہت میں چاند چھونے کا جذبہ کدھر گیا
تاریکیاں ہیں ساتھ مرے اور سفر مدام
کل تک تھا ہم قدم جو فرشتہ کدھر گیا
جو رہنما تھے میرے کہاں ہیں وہ نقش پا
منزل پہ چھوڑتا تھا جو رستہ کدھر گیا
غزل
کاغذ کی ناؤ کیا ہوئی دریا کدھر گیا
جاوید ندیم