کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا
تتلی کی اداسی کو بھی امکان میں رکھنا
میں عشق ہوں اور میرا نہیں کوئی ٹھکانہ
اے حسن مجھے دیدۂ حیران میں رکھنا
شاید میں کسی اور زمانے میں بھی آؤں
ممکن تو نہیں ہے مگر امکان میں رکھنا
اب مرکزی کردار تمہارا ہے مرے دوست
تم میری کہانی کو ذرا دھیان میں رکھنا
یہ راہ محبت تو فقط بند گلی ہے
آسان سے رستے کو بھی سامان میں رکھنا

غزل
کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا
اسحاق وردگ