کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی
پر حیف ترے دل میں محبت نہ ذری دی
دی تو نے مجھے سلطنت بحر و بر اے عشق
ہونٹوں کو جو خشکی مری آنکھوں کو تری دی
خال لب شیریں کا دیا بوسہ کب اس نے
اک چاٹ لگانے کو مرے نیشکری دی
کافر ترے سوائے سر زلف نے مجھ کو
کیا کیا نہ پریشانی و آشفتہ سری دی
محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو
بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی
صیاد نے دی رخصت پرواز پر افسوس
تو نے نہ اجازت مجھے بے بال و پری دی
کہتا ترا کچھ سوختہ جاں لیک اجل نے
فرصت نہ اسے مثل چراغ سحری دی
قسام ازل نے نہ رکھا ہم کو بھی محروم
گرچہ نہ دیا کوئی ہنر بے ہنری دی
اس چشم میں ہے سرمے کا دنبالہ پر آشوب
کیوں ہاتھ میں بدمست کے بندوق بھری دی
دل دے کے کیا ہم نے تری زلف کا سودا
اک آپ بلا اپنے لیے مول خریدی
ساقی نے دیا کیا مجھے اک ساغر سرشار
گویا کہ دو عالم سے ظفرؔ بے خبری دی
غزل
کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی
بہادر شاہ ظفر