کافر ہوئے صنم ہم دیں دار تیری خاطر
تسبیح توڑ باندھا زنار تیری خاطر
گل سینہ چاک بلبل نالاں چمن میں دیکھی
آنکھوں کے دکھ سے نرگس بیمار تیری خاطر
ابرو کی تو اشارت جس کی طرف کرے تھا
چلتی تھی مجھ میں اس میں تلوار تیری خاطر
میں جھوٹ سچ بھی یک دم آنسو نہ ان کے پونچھے
جو چشم روز و شب ہیں خوں بار تیری خاطر
سب آشناؤں سے ہم بیگانہ ہو رہے تھے
اب زندگی ہے اپنی دشوار تیری خاطر
مسجد میں میکدے میں کیا کیفی اور صوفی
بے ہوش تیری خاطر ہشیار تیری خاطر
جو راہ عاشقی میں تھی پستی و بلندی
وہ ہم نے کی سراسر ہموار تیری خاطر
پتھرا گئی ہیں آنکھیں انجم کی طرح ہر شب
بیدار رہتے رہتے اے یار تیری خاطر
اس ابر میں چمن نے کیا کیا کیا ہے ساقی
اسباب مے کشی کا تیار تیری خاطر
ہر غنچہ ہے گلابی ہر گل ہے ساغر مے
مے خانہ ہو رہا ہے گلزار تیری خاطر
آگے تو کوچہ گردی شیوہ نہ تھا محبؔ کا
کی اب شروع اس نے ناچار تیری خاطر
غزل
کافر ہوئے صنم ہم دیں دار تیری خاطر
ولی اللہ محب