EN हिंदी
کائنات آرزو میں ہم بسر کرنے لگے | شیح شیری
kaenat-e-arzu mein hum basar karne lage

غزل

کائنات آرزو میں ہم بسر کرنے لگے

چترانش کھرے

;

کائنات آرزو میں ہم بسر کرنے لگے
سب بہت نفرت سے کیوں ہم پر نظر کرنے لگے

تیرے ہر لمحہ کا ہم نے آج تک رکھا حساب
یہ الگ ہے بات خود کو بے خبر کرنے لگے

زندگی کو الوداع کہہ کر چلا جاؤں گا میں
جب مری تنہائی مجھ کو در بدر کرنے لگے

ملک کی بربادیاں اس وقت طے ہو جائیں گی
جب بری تہذیب بچوں پر اثر کرنے لگے

یا خدا راہ وفا پر رہبری کرنا میری
جب مجھے گمراہ میرا ہم سفر کرنے لگے

چھوڑ کر اس وقت عہدہ خود چلا جاؤں گا میں
شک جہاں کوئی مرے ایمان پر کرنے لگے

عشق کے اس موڑ کو سب لوگ کہتے ہیں جنوں
دل کسی کو یاد جب شام و سحر کرنے لگے