کعبہ و دیر میں ہے کس کے لیے دل جاتا
یار ملتا ہے تو پہلو ہی میں ہے مل جاتا
خدمت یار میں میں جبکہ ہوں سائل جاتا
کچھ نہ کچھ بوسہ و دشنام سے ہے مل جاتا
تیرے دانتوں سے جو ہونے کو مقابل جاتا
صورت اشک گہر خاک میں مل مل جاتا
پھل ملا ہے یہ تری تیغ سے ہم کو اے ترک
پھوٹ کی طرح ہر اک زخم ہے کھل کھل جاتا
رخ کے ہوتے ہوے ڈھونڈا نہ دہن کا مضمون
سہل کو چھوڑ کے کیوں جانب مشکل جاتا
پر تو کترے ہیں یقین ہے کہ چھری بھی پھیرے
زمزموں سے مرے صیاد ہے ہل ہل جاتا
زخم کاری کی تری تیغ سے اللہ ری خوشی
رقص کرتا ہوا دنیا سے ہے بسمل جاتا
راہ بھولے ہوے حاجی ہے بھٹکتا ناحق
کعبۃ اللہ جو جاتا تو سوئے دل جاتا
طرفہ رکھتی ہے خرابات مغاں کیفیت
ہوشیار آ کے ہے اس بزم سے غافل جاتا
راہ میں شان کریمی ہے تری بھر دیتی
پھر کے خالی کسی در سے جو ہے سائل جاتا
اے صبا تو ہی اڑا کر رخ لیلیٰ دکھلا
دست مجنوں نہیں تا پردۂ محمل جاتا
کون سی راحت جاں کی ہیں یہ آنکھیں مشتاق
کر کے اندھیر ہے وہ رونق محفل جاتا
آمد یار کی کانوں سے سنی ہے جو خبر
چھپ کے پہلو سے ہے آنکھوں کی طرف دل جاتا
غزل
کعبہ و دیر میں ہے کس کے لیے دل جاتا
حیدر علی آتش