کعبہ محدود ہے پابند صنم خانہ ہے
عشق ہر قید خیالات سے بیگانہ ہے
کس قدر شوخ مری فطرت رندانہ ہے
لب پہ ہے نام خدا ہاتھ میں پیمانہ ہے
خاک ہونے پہ بھی دامان شرر ہی میں رہا
کس قدر شعلہ فشاں فطرت پروانہ ہے
فیصلہ جذبۂ وحشت ہے تجھی پر موقوف
یہ قفس ہے یہ گلستاں ہے یہ ویرانہ ہے
فرصت فکر و سماعت ہے تو سن لو آ کر
دل کی دھڑکن میں نہاں درد کا افسانہ ہے
جستجوئے حرم و دیر نہیں ہے میکشؔ
دل ہی کعبہ ہے مرا دل ہی صنم خانہ ہے

غزل
کعبہ محدود ہے پابند صنم خانہ ہے
مسعود میکش مراد آبادی