کعبہ ہے اگر شیخ کا مسجود خلائق
ہر بت ہے مرے دیر کا معبود خلائق
نقصان سے اور نفع سے کچھ اپنے نہیں کام
ہر آن ہے منظور مجھے سود خلائق
میں دست دعا اس کی طرف کیونکہ اٹھاؤں
ہوتا ہی نہیں چرخ سے مقصود خلائق
پھرتا ہے فلک فکر میں گردش میں یہ سب کی
ہرگز یہ نہیں چاہتا بہبود خلائق
تاباںؔ مرے مذہب کو تو مت پوچھ کہ کیا ہے
مقبول ہوں خلاق کا مردود خلائق
غزل
کعبہ ہے اگر شیخ کا مسجود خلائق
تاباں عبد الحی