کعبہ بھی ہے ٹوٹا ہوا بت خانہ ہمارا
یا رب رہے آباد یہ ویرانہ ہمارا
باطن کی طرح پاک ہے خم خانہ ہمارا
کیوں کر نہ اچھوتا رہے پیمانہ ہمارا
جو شمع ہوا کرتی ہے روشن سر بازار
اس شمع پہ گرتا نہیں پروانہ ہمارا
ساقی ترا مے خانہ رہے حشر تک آباد
بھر جاتا ہے کشکول گدایانہ ہمارا
بہہ جائے گا اس بزم میں اک فیض کا دریا
آتا ہے چھلکتا ہوا پیمانہ ہمارا
چل سوئے عدم چل ہمیں کیا عذر ہے اے موت
تیار ہے سامان غریبانہ ہمارا
بن جاتا ہے پھر شیخ کا بھی مرشد کامل
ڈگتا نہیں پیتا ہے جو پیمانہ ہمارا
کس زلف کو سلجھائیں رقیبان سیہ کار
چھوتا نہیں اس زلف کو پھر شانہ ہمارا
فریاد کناں ہیں کسی پازیب کے دانے
توڑے کہیں زنجیر نہ دیوانہ ہمارا
خاروں سے یہ کہہ دو کہ گل تر سے نہ الجھیں
سیکھے کوئی انداز شریفانہ ہمارا
تاثیر نہ ہو شادؔ تو دینا ہمیں الزام
کچھ دیر تو سن واعظ حکیمانہ ہمارا
غزل
کعبہ بھی ہے ٹوٹا ہوا بت خانہ ہمارا
شاد عظیم آبادی