جزو و کل کا ہم اس انداز سے رشتہ سمجھے
دیکھ کر قطرے کو ماہیت دریا سمجھے
ہر ادا تیری ہم آہنگ تھی دل سے اتنی
ہر ادا کو تری ہم دل کا تقاضا سمجھے
ہم وہ خودبیں ہیں کہ ہنگامۂ دل کے آگے
سارے ہنگامۂ گیتی کو تماشا سمجھے
ہم کو مٹی کے گھروندوں کی حقیقت معلوم
جسم کی خاک کو ہم نفس کا سایہ سمجھے
ہم کہ ہر نسبت موہوم کو اپناتے رہے
اک شکستہ سے تعلق کو بھی کتنا سمجھے
استوار اتنا ہوا رشتۂ آواز اکبرؔ
دل کی دھڑکن کو بھی ہم دوست کا لہجہ سمجھے
غزل
جزو و کل کا ہم اس انداز سے رشتہ سمجھے
اکبر حیدری