EN हिंदी
جز رشتۂ خلوص یہ رشتہ کچھ اور تھا | شیح شیری
juz rishta-e-KHulus ye rishta kuchh aur tha

غزل

جز رشتۂ خلوص یہ رشتہ کچھ اور تھا

محمد احمد

;

جز رشتۂ خلوص یہ رشتہ کچھ اور تھا
تم میرے اور کچھ میں تمہارا کچھ اور تھا

جو خواب تم نے مجھ کو سنایا تھا اور کچھ
تعبیر کہہ رہی ہے کہ سپنا کچھ اور تھا

ہم راہیوں کو جشن منانے سے تھی غرض
منزل ہنوز دور تھی رستہ کچھ اور تھا

امید و بیم عشرت و عسرت کے درمیاں
اک کشمکش کچھ اور تھی، کچھ تھا کچھ اور تھا

ہم بھی تھے یوں تو محو تماشائےدہر پر
دل میں کھٹک سی تھی کہ تماشا کچھ اور تھا

جو بات تم نے جیسی سنی ٹھیک ہے وہی
میں کیا کہوں کہ یار یہ قصہ کچھ اور تھا

احمدؔ غزل کی اپنی روش اپنے طور ہیں
میں نے کہا کچھ اور ہے سوچا کچھ اور تھا